پاکستان میں سنیل (گھونگھے) کی کاشت ایک نیا اور منفرد شعبہ ہے جس میں مناسب رہنمائی اور تحقیق کے ذریعے خاصی معاشی امکانات موجود ہیں۔ ذیل میں سنیل فارمنگ کے اہم پہلوؤں پر تحقیقی بنیادوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سنیل کی اقسام (Species)
Helix Aspersa (گارڈن سنیل) – یہ درمیانے جسامت کا زمینی گھونگھا ہے جو معتدل آب و ہوا میں بہتر پرورش پاتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مختلف ماحول کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یورپ میں خوراک (اسکارگوٹ) کے لیے وسیع پیمانے پر پالا جاتا ہے ۔ Helix aspersa کو معتدل موسم، ہلکی سردیوں اور درمیانی نمی والی آب و ہوا درکار ہوتی ہے ۔ پاکستان کے شمالی یا معتدل علاقوں (مثلاً پنجاب کے کچھ حصے، خیبرپختونخوا) میں یہ نسل موزوں ہو سکتی ہے کیونکہ سردیوں میں یہ سرما خوابی (Hibernate) کر کے خود کو محفوظ رکھ لیتی ہے ۔ اس نسل کی عمر عموماً 2 سے 5 سال ہوتی ہے اور یہ مختلف موسموں میں بھی اپنی افزائش جاری رکھ سکتی ہے
Achatina Fulica (جائنٹ آفریکن سنیل) – یہ بڑے جسامت والا افریقی گھونگھا ہے جو گرم اور مرطوب آب و ہوا میں تیزی سے بڑھتا اور افزائش کرتا ہے Achatina fulica کو 20°سے 30°سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور زیادہ نمی والا ماحول پسند ہے ، لہٰذا پاکستان کے ساحلی یا جنوبی علاقوں (مثلاً سندھ، جنوبی پنجاب) کے لیے یہ مناسب رہ سکتا ہے۔ اس کی تولیدی صلاحیت بہت زیادہ ہے اور ایک سال میں کئی سو انڈے دے سکتا ہے ۔ تاہم یہ سخت سردی برداشت نہیں کر سکتا، اس لیے سرد مہینوں میں کنٹرولڈ ماحول کی ضرورت ہوگی۔ یہ نسل اپنی بڑی جسامت اور تیز افزائش کی وجہ سے نوآموز فارمروں میں مقبول ہے۔
نوٹ: پاکستان میں جنگلی گھونگھے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ابتدائی breeder اسٹاک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں اقسام دنیا بھر میں کاشت کے لیے مقبول ہیں؛ Helix aspersa کا گوشت عالمی منڈی میں زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے جبکہ افریقی گھونگھے کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے ۔ اپنے علاقے کے موسم کو دیکھتے ہوئے مناسب نسل کا انتخاب کریں تاکہ فارمنگ کامیاب ہو۔
زندگی اور افزائش (Life Cycle & Reproduction)
سنیل کی زندگی اور افزائش کے متعلق سمجھنا کامیاب فارمنگ کے لیے ضروری ہے۔ گھونگھے خنثی (hermaphrodite) ہوتے ہیں یعنی ہر گھونگھے میں نر اور مادہ دونوں تولیدی اعضا ہوتے ہیں، لیکن انڈے دینے کے لیے انہیں آپس میں ملاپ کرنا پڑتا ہے ۔ عام طور پر گھونگھے عمر کے ایک مخصوص حصے میں پہنچ کر (کئی ماہ یا سال بعد) تولید کے قابل ہوتے ہیں اور ملاپ عموماً برسات یا سازگار موسم میں ہوتا ہے ۔ گرم اور مرطوب علاقوں میں سال میں کئی مرتبہ بھی ملاپ اور انڈے ہو سکتی ہے ۔
انڈے دینے اور پیدائش: کامیاب ملاپ کے بعد گھونگھا چند ہفتوں میں انڈے دے دیتا ہے۔ انڈے نرم نم مٹی میں گڑھا کھود کر دیے جاتے ہیں۔ ایک بار میں انڈوں کی تعداد نسل پر منحصر ہے: چھوٹے گارڈن سنیل (Helix) عموماً 50 سے 100 تک انڈے دیتے ہیں، جبکہ بڑے افریقی سنیل ۲۰۰ تک یا اس سے بھی زیادہ انڈے ایک کلمے میں دے سکتے ہیں ۔ مثلاً Achatina fulica نے موافق آب و ہوا میں کلکتہ میں سالانہ اوسطاً ۱۰۰۰ تک انڈے دینے کا ریکارڈ دکھایا ہے ۔ انڈوں سے بچے ۲ سے ۴ ہفتوں میں نکل آتے ہیں (درجہ حرارت پر منحصر) ۔ بچے ابتدائی دنوں میں مٹی میں ہی رہ کر اپنے انڈوں کے چھلکے اور نامیاتی مادہ کھاتے ہیں تاکہ کیلشیم حاصل کر سکیں ۔
نشوونما کی رفتار: گھونگھوں کی بڑھوتری کئی عوامل سے متاثر ہوتی ہے جیسے آبادی کی گنجائش، خوراک، درجہ حرارت اور نمی وغیرہ ۔ اگر ماحول سازگار ہو تو کچھ گھونگھے تیزی سے بالغ ہو جاتے ہیں (مثلاً 6-8 ماہ میں)، ورنہ ایک سال یا زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ متوازن خوراک دینے سے Helix aspersa کی افزائش مدت 27 ماہ سے کم ہو کر 17 ماہ تک آ سکتی ہے ۔ کیلشیم اور نمی خصوصی طور پر بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں؛ کیلشیم کی کمی سے خول کمزور رہ جاتا ہے اور بڑھوتری رک سکتی ہے ۔ اسی طرح خشک ماحول میں گھونگھے غیرفعال ہو کر اپنے خول کا منہ سیل کر لیتے ہیں اور موسم بہتر ہونے کا انتظار کرتے ہیں (اس عمل کو ایسٹیویشن کہتے ہیں) ۔ لہٰذا تیز افزائش کے لیے نم اور مناسب گرم ماحول، معیاری خوراک اور کم ازدحام فراہم کرنا ضروری ہے ۔
اوسط عمر اور وقفے: زیادہ تر کھیتی کے گھونگھے تقریباً ۵ سے ۶ سال تک زندہ رہ سکتے ہیں، کچھ کیسز میں ۱۰ سال تک بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔ ہر بالغ گھونگھا ہر موسم میں انڈے نہیں دیتا – سازگار حالات ہوں تو ہی سال میں کئی کلمے انڈے دے گا۔ افزائش کو تیز کرنے کے لیے کوشش کریں کہ گھونگھوں کو ایسا ماحول ملے جو قدرتی برسات جیسا ہو، یعنی درجہ حرارت معتدل اور نمی زیادہ رہے۔ مثال کے طور پر فارم ہاؤس میں اسپرے سے مصنوعی بارش کا ماحول بنا کر گھونگھوں کو ملاپ کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ملاپ کے بعد گھونگھے ضرورت پڑنے پر اپنے شریک کا Sperms ایک سال تک جسم میں محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں اور موزوں وقت پر انڈے جاری کر دیتے ہیں ۔
خوراک (Feeding)
سنیل سبزی خور (vegetarian) ہوتے ہیں اور متعدد اقسام کے پودے، پھل اور سبزیاں شوق سے کھاتے ہیں ۔ ان کی خوراک کا بنیادی حصہ کاربوہائیڈریٹس (توانائی کے لیے) اور تھوڑا پروٹین (نشوونما کے لیے) پر مشتمل ہونا چاہیے، نیز مضبوط خول کے لیے کافی کیلشیم بھی ضروری ہے۔ ذیل میں سنیلز کے لیے موزوں خوراک کی اقسام درج ہیں:
• سبز پتے: گھونگھے نرم پتوں والی سبزیاں بہت پسند کرتے ہیں۔ مثلاً بندگوبھی، سلاد پتہ، پالک، سرسوں، میتھی، شلجم اور کچنار کے پتے وغیرہ۔ اس کے علاوہ ترئی/لوکی کے پتے، کدو کے پتے، ہرا چارہ (برسیم وغیرہ) بھی کھا لیتے ہیں۔ پپیتے کے پتے ایک آزمودہ بہترین قدرتی فیڈ ہیں جو کئی آزمائشوں میں عمدہ ثابت ہوئے ہیں ۔
• سبزیاں اور پھل: گھونگھے پھلوں اور بعض سبزیوں کے نرم حصے بھی کھاتے ہیں۔ مثلاً کدو، کھیرا، ٹماٹر، بھنڈی، بینگن اور پھلوں میں آم، کیلا، پپیتا، تربوز کے چھلکے وغیرہ ۔ پھلوں میں حیاتین (وٹامنز) اور معدنیات پائے جاتے ہیں لیکن پروٹین کم ہوتی ہے، اس لیے صرف پھل پر انحصار نہ کیا جائے۔
• جڑیں اور گٹھلیاں: شکر قندی، آلو، یم، اروی، گاجر وغیرہ کاربوہائیڈریٹ مہیا کرتی ہیں۔ تاہم ان میں پروٹین کم ہوتا ہے لہٰذا متوازن خوراک کے لیے ان کے ساتھ پتوں یا چارے کا استعمال کریں ۔
کیلشیم کی فراہمی: چونکہ گھونگھے کے خول 97-98٪ کیلشیم کاربونیٹ سے بنتے ہیں، انہیں خوراک یا مٹی کے ذریعے کیلشیم ملنا بےحد ضروری ہے ۔ آپ ان کو پسے ہوئے انڈوں کے چھلکے، چاک/چونے کا پاؤڈر یا اوسٹر شیل (سیپی کے چھلکے) بطور سپلیمنٹ دے سکتے ہیں تاکہ خول کی نشوونما ٹھیک ہو۔ کیلشیم کے علیحدہ برتن یا ٹرے رکھیں تاکہ گھونگھے ضرورت کے مطابق چاٹ سکیں ۔
گھریلو/مارکیٹ ویسٹ: اخروٹ یا امرود وغیرہ کے پتوں کے علاوہ کچن سے نکلنے والے پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے (مثلاً کیلے، پپیتے، تربوز کے چھلکے) اور بچی ہوئی ابلی سبزیاں وغیرہ بھی دی جا سکتی ہیں، بشرطیکہ ان میں نمک یا مسالہ نہ ہو (نمک گھونگھے کے لیے انتہائی مضر ہے اور انہیں مار سکتا ہے)۔ مقامی سبزی منڈی میں جو پھل سبزیاں ضائع ہو رہی ہوں وہ سستے داموں لے کر فیڈ کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہیں – اس طرح خوراک کی لاگت کم ہوگی۔
تیار شدہ فیڈ اور فارمولے: اگر قدرتی چارہ وافر مقدار میں دستیاب نہ ہو تو نیم تجارتی یا تجارتی فارمنگ میں تیار فیڈ بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں مخصوص “سنیل فیڈ” دستیاب نہیں، کسان اپنے طور پر پولٹری یا مچھلی کی فیڈ کو حسب ضرورت استمعال کر رہے ہیں ۔ افریقہ میں تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ پولٹری فیڈ گھونگھوں کی اچھی نشوونما کر سکتی ہے ۔ ایک معیاری گھونگھا فیڈ کا فارمولا (100 کلوگرام کا بیچ) کچھ یوں ہے: مکئی 31 کلو، گراؤنڈنٹ کیک 10 کلو، سویا بین میل 25 کلو، مچھلی کا آٹا 4 کلو، گندم چوکر 16 کلو، پام کرنل کیک 4 کلو، اوسٹر شیل 8 کلو، ہڈی کا چورن 1 کلو اور معدنیات/وٹامنز کا پری مکس 0.25 کلو ۔ اس طرح کے متوازن فیڈ میں تقریباً 20٪ پروٹین اور بھرپور کیلشیم شامل ہوتی ہے جس سے بڑھوتری تیز ہوتی ہے۔ تاہم تیار فیڈ مہنگی پڑ سکتی ہے، اس لیے زیادہ تر فارمرز کوشش کرتے ہیں کہ موسمی سبز چارہ اور سبزیوں سے ہی خوراک پوری کریں
پانی اور رہنما اصول: گھونگھے عام طور پر خوراک اور مٹی سے نمی حاصل کر لیتے ہیں، لیکن فارم پر ان کے رہائشی حصے کو نم رکھنا انتہائی اہم ہے۔ دن میں ایک دو مرتبہ اسپرے سے زمین کو گیلا کریں تاکہ نمی 75-95٪ تک رہے ۔ یاد رکھیں کہ کیچڑ یا دلدلی پانی کھڑا نہ ہو کیونکہ گھونگھے بھیگی زمین پسند کرتے ہیں مگر پانی میں ڈوب کر مر سکتے ہیں ۔ خوراک میں تبدیلی لانی ہو تو بتدریج نئی خوراک شامل کریں تاکہ گھونگھے اسے قبول کر لیں۔ گھونگھوں کو روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر خوراک ڈالیں اور بچا ہوا سڑا ہوا کھانا ہٹا دیں تاکہ بیماری نہ پھیلے۔ ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خوراک کی مناسب فراہمی سے گھونگھوں کی صحت مند افزائش ممکن ہے
فارمنگ کا طریقہ (Housing & Farming Methods)
سنیل فارمنگ میں گھونگھوں کے لیے ایسا ماحول بنانا ضروری ہے جو ان کی قدرتی رہائش سے ملتا جلتا اور محفوظ ہو۔ گھونگھے کوٹھنڈے، سایہ دار اور نم مقام چاہیے جہاں انہیں دھوپ اور خشک ہوا سے بچاؤ مل سکے ۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں بھاگنے یا شکار ہونے سے بچانے کے لیے بندوبست ہونا چاہیے۔ مجموعی طور پر دو طریقہ ہائے کار رائج ہیں: اوپن یا فری رینج فارمنگ اور کنٹرولڈ/انڈور فارمنگ۔
اوپن فارمنگ (کھلی جگہ پر پرورش): اس طریقے میں گھونگھوں کو ایک محدب زمینى قطعے یا باڑے میں رکھا جاتا ہے جس کے گرد مناسب باڑ یا جالی ہوتی ہے تاکہ گھونگھے باہر نہ نکل سکیں۔ زمین پر 4-6 انچ ڈھیلی مٹی بچھائی جاتی ہے جو نامیاتی مادے اور کیلشیم سے بھرپور ہو (جیسے وہ مٹی جس میں سبزیاں اچھی اگتی ہوں) ۔ مٹی زیادہ ریتلی نہ ہو تاکہ نمی برقرار رہے، اور نہ ہی بہت بھاری چکنی ہو جو بارش میں کیچڑ بن جائے ۔ باڑے کے اندر قدرتی پودے (جیسے کدو، لوکی، ترکاری کے پتے یا چارہ) لگائے جا سکتے ہیں تاکہ گھونگھے کو چھپنے اور چرنے کی جگہ ملے۔ اوپر سے باریک جالی یا شید نیٹ لگائیں تاکہ پرندے وغیرہ گھونگھوں تک نہ پہنچیں۔ باڑے کی چار دیواری ایسی ہو جس پر گھونگھا آسانی سے نہ چڑھ سکے – مثلاً پلاسٹک شیٹ یا ٹین کی چادر کی ملائم سطح۔ زمین میں باڑ کم از کم 6 انچ گہری دبائیں تاکہ گھونگھے نیچے سے سرنگ بنا کر نہ نکل سکیں۔ ایک فرانسیسی فارم کا کہنا ہے کہ “گھونگھے بھاگنے کے بہت ماہر ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی سوراخ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں، اس لیے باڑے کا مکمل معائنہ ضروری ہے۔ اوپن فارمنگ میں ماحول کسی حد تک قدرتی رہتا ہے مگر فارمر کو درجہ حرارت اور نمی پر نظر رکھنی پڑتی ہے – خشک موسم میں باڑے کو صبح شام پانی سے ہلکا گیلا کریں اور سخت دھوپ میں اوپر شید نیٹ سے سایہ کریں۔ رات کے وقت گھونگھے زیادہ متحرک ہوتے ہیں جبکہ دن میں چھپ کر آرام کرتے ہیں ، اس لیے باڑے میں خشک پتوں کے ڈھیر یا لکڑی کے تختے رکھ دیں جن کے نیچے دن میں گھونگھے چھپ سکیں۔ اس طریقے کا فائدہ کم لاگت اور قدرتی ماحول ہے، لیکن نقصانات میں شکاروں (چیونٹی، چوہے، پرندے) سے خطرہ اور موسم کی سختیوں کا اثر شامل ہے۔
کنٹرولڈ/بند فارمنگ (انڈور یا نیم انڈور): اس طریقے میں گھونگھوں کو مکمل یا جزوی طور پر ایک کنٹرول شدہ ماحول میں رکھا جاتا ہے، مثلاً لکڑی یا کنکریٹ کے بنے ہچ باکسز، ٹینک یا شیڈ/گرین ہاؤس کے اندر مخصوص قلمیں۔ ہچ باکس ایک لکڑی کا ڈبہ ہوتا ہے جس کی تہہ میں مٹی اور پتوں کی تہہ ہوتی ہے اور اوپر جالی دار ڈھکن ہوتا ہے ۔ ایسے باکسز کو ہوا دار کمرے یا شیڈ میں رکھتے ہیں جہاں درجہ حرارت اور نمی کو آلات کے ذریعے مانیٹر کیا جا سکے۔ ہچ باکس نظام نیم-شدید (semi-intensive) فارمنگ کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ ان میں انڈے اور ننھے بچے آسانی سے دیکھ بھال کیے جا سکتے ہیں ۔ کئی فارمر پہلے بالغ گھونگھوں کو بڑے قلم یا باڑے میں پالتے ہیں، جب وہ انڈے دینے کے لیے گڑھے کھودنے لگیں تو انہیں ہچ باکس یا مخصوص انڈے دینے والے خانے میں منتقل کر دیتے ہیں تاکہ انڈے محفوظ رہیں ۔ انڈوں سے بچے نکل آئیں تو والدین کو واپس بڑے قلم میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس علیحدہ نگہداشت سے بچوں کی بقا شرح بڑھ جاتی ہے۔
کنٹرولڈ فارمنگ میں آپ شیڈ یا گرین ہاؤس میں درجہ حرارت اور نمی کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ہیٹر اور ہیومیڈیفائر/اسپرے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً سردیوں میں اگر درجہ حرارت بہت گر جائے تو کمرہ گرم کر لیا اور گرمیوں میں شید نیٹ اور پنکھوں سے ٹھنڈا رکھا۔ نم رکھنے کے لیے باقاعدہ اسپرنکلر یا اسپرے سے پانی دیا جاتا ہے ۔ 80٪ یا زیادہ ہوا میں نمی گھونگھوں کی سرگرمی اور بڑھوتری کے لیے مثالی ہے ۔ اس طریقے کا فائدہ یہ ہے کہ موسم یا شکاریوں کا اثر کم ہو جاتا ہے اور گھونگھے سال بھر افزائش کر سکتے ہیں۔ نقصانات میں سیٹ اپ کا اضافی خرچہ اور بجلی/آلات کا استعمال ہے۔ تاہم، پاکستان جیسے ملک میں جہاں موسم بعض اوقات انتہائی ہو سکتا ہے (سخت گرمی یا سردی)، نیم بند نظام سے پیداوار میں تسلسل رکھا جا سکتا ہے۔
شکاریوں اور حفاظت: گھونگھے کے قدرتی شکاریوں میں چیونٹیاں، کیڑے (مثلاً ڈنگ بیٹل وغیرہ)، مینڈک، چوہے اور پرندے شامل ہیں۔ اوپن فارمنگ کرتے وقت ان سے بچاؤ کا انتظام کریں۔ باڑے کے ارد گرد اگر ممکن ہو تو باریک کپڑے کی جالی زمین پر بچھا دیں یا پانی کی باریک نالی بنا دیں تاکہ چیونٹیاں داخل نہ ہو سکیں۔ پرندوں سے بچاؤ کے لیے اوپر جالی ضروری ہے۔ چوہوں کو دور رکھنے کے لیے باڑے/شیڈ کے قریب جال یا بھبھکے لگائیں۔ کنٹرولڈ شیڈ میں داخلے کے مقام پر کیڑے مار چاک یا راکھ کا باریک حصار بھی چیونٹیوں کو روک سکتا ہے۔ مٹی کی صفائی: ہر 2-3 ماہ بعد قلم یا باکس کی مٹی بدل دیں کیونکہ گھونگھوں کا فضلہ اور بلغم جمع ہو کر بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ نئی مٹی ڈالنے سے قبل پرانی مٹی کو سورج میں سکھا کر یا اُبال کر جراثیم سے پاک کر لیں (خصوصاً اگر کوئی بیماری یا کیڑوں کا حملہ ہوا ہو) ۔
خلاصہ یہ کہ سنیل فارمنگ کے لیے ایسا رہائشی انتظام بہترین ہے جو نمدار، ہوا دار، سایہ دار اور محفوظ ہو۔ آپ کے دستیاب وسائل کے مطابق اوپن یا کنٹرولڈ کسی بھی طریقے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، یا دونوں کا امتزاج بھی ممکن ہے (جیسے انڈوں اور بچوں کو انڈور باکس میں بڑا کریں اور جوان گھونگھوں کو فری رینج قلم میں منتقل کر دیں) ۔ اچھی رہائش گھونگھے کی صحت، تیز بڑھوتری اور بہتر پیداوار کا باعث بنے گی۔
خریداری اور افزائش (Sourcing & Breeding Setup)
ابتدائی سٹاک کی فراہمی: چونکہ پاکستان میں سنیل فارمنگ ایک نیا شعبہ ہے، اس لیے تجارتی پیمانے پر گھونگھے فراہم کرنے والے بہت کم ہیں۔ 2021 میں منسرہ (خیبرپختونخوا) کی ایک خاتون نے پہلی کمرشل سنیل فارمنگ کا آغاز کیا اور جنگلی گھونگھے جمع کر کے 500 کلو تک کا اسٹاک تیار کیا ۔ آغاز کرنے والے فارمرز مقامی طور پر باغات، کھیتوں اور نہری علاقوں سے برسات کے موسم میں گھونگھے اکٹھے کر سکتے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کچھ مرطوب علاقوں میں برسات کے دوران گھونگھے نکل آتے ہیں جنہیں ہاتھ سے چن کر فارم پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ جمع کرتے وقت دھیان رکھیں کہ صرف صحت مند اور مکمل خول والے گھونگھے لیں۔ اگر وسائل ہوں تو بیرون ملک (مثلاً یورپ یا افریقہ) سے بھی Helix aspersa یا Achatina fulica کے انڈے/بچے درآمد کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے محکمہ جنگلی حیات اور پلانٹ پروٹیکشن سے اجازت نامہ درکار ہوگا کیونکہ بیرونی گھونگھا ایک Invasive Species بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
افزائش کے لیے اقدامات: جب ابتدائی جاندار حاصل کر لیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں:
رہائش کی تیاری: پہلے سے بیان کردہ اصولوں کے مطابق باڑا، باکس یا شیڈ تیار کریں۔ یقینی بنائیں مٹی نرم اور غذائیت سے بھرپور ہے، جگہ سایہ دار ہے اور بھاگنے یا شکاریوں کا خدشہ کم ہے۔ نئے گھونگھے لانے سے پہلے باڑے کو ہلکے پوٹاشیم پرمیگنیٹ یا نمک کے محلول سے دھو کر صاف کریں (پھر تازہ پانی سے خوب دھو کر نمک کے اثر کو ختم کر دیں) تاکہ جراثیم نہ رہیں۔
2. آبادی کا تعین: گھونگھوں کو مناسب گنجائش دیں۔ بہت زیادہ گھونگھے تنگ جگہ میں رکھنے سے افزائش متاثر ہوتی ہے (اسٹریس اور خوراک کی کمی) ۔ ایک مربع میٹر کے باڑے میں بڑے گھونگھوں (Achatina) کے لیے 15-20 اور چھوٹے گھونگھوں (Helix) کے لیے 30-40 سے زیادہ بالغ نہ رکھیں، یا دستیاب رہائشی حجم کے حساب سے تناسب قائم کریں۔
3. غذا اور پانی کا انتظام: گھونگھوں کو پہلے دن سے متنوع خوراک دیں۔ ابتداء میں وہ پرانی جگہ کی نسبت نئی خوراک میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لے سکتے ہیں، اس لیے پہلے ان کی پسند کی چیز (مثلاً کدو کے پتے یا بندگوبھی) دیں۔ روزانہ شام کے وقت خوراک دیں کیونکہ گھونگھے رات کو زیادہ کھاتے ہیں ۔ کیلشیم سپلیمنٹ (پسا ہوا چونا/انڈے کے چھلکے) الگ رکھیں۔ باڑے/باکس کو صبح شام ہلکا گیلا کرتے رہیں تاکہ نمی برقرار رہے۔ اگر باہر کا درجہ حرارت بہت زیادہ یا کم ہو تو شیڈ کے اندر درجہ حرارت کو معتدل رکھیں۔
4. مشاہدہ اور ملاپ: شروع میں گھونگھے نئے ماحول کو جانچیں گے۔ کچھ دن بعد جب وہ اچھی خوراک اور ماحول کے عادی ہو جائیں تو ان کی افزائش کے آثار شروع ہوں گے۔ آپ دیکھیں گے گھونگھے جوڑوں میں گھوم رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ملاپ کر رہے ہیں۔ گھونگھے ملاپ کے وقت کئی گھنٹے ساتھ لگے رہتے ہیں – اس دوران مداخلت نہ کریں۔ اس عرصے میں شور شرابہ یا بار بار ہاتھ لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ گھونگھے حساس ہوتے ہیں اور اسٹریس سے افزائش رک سکتی ہے
5. انڈوں کی دیکھ بھال: ملاپ کے 1-2 ہفتے بعد گھونگھیاں (تمام گھونگھے) انڈے دینا شروع کر دیں گی۔ وہ مٹی میں چھوٹے گڑھے کھود کر انڈے دفن کرتے ہیں۔ باقاعدگی سے باڑے کا معائنہ کریں۔ اگر اوپن باڑے میں انڈے ہوں تو انہیں احتیاط سے نکال کر ایک علیحدہ نرسری باکس میں نرم نم مٹی میں دبا دیں، کیونکہ اوپن باڑے میں چیونٹیاں یا دوسرے گھونگھے انڈوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نرسری باکس میں نمی اور درجہ حرارت مناسب رکھیں۔ تقریباً 2-3 ہفتوں میں بچے نکل آئیں گے ۔
6. بچوں (Hatchlings) کی پرورش: ننھے گھونگھے بہت نازک ہوتے ہیں۔ انہیں شروع میں وہی مٹی اور ماحول دیں جو انڈوں کے لیے تھا۔ پہلے چند دن وہ مٹی کے اندر یا قریب ہی رہیں گے اور اپنے انڈے کے خول وغیرہ کو کھا کر غذائیت لیں گے ۔ ایک ہفتے بعد چھوٹے نرم پتے کا باریک کٹا ہوا چارہ دیں۔ بچوں کو علیحدہ باکس میں رکھیں تاکہ بڑے گھونگھوں سے کچلے نہ جائیں۔ نمی بچوں کے لیے بہت اہم ہے؛ نرسری کو عام قلم سے زیادہ نم رکھیں ۔ جب بچے کچھ بڑے ہو جائیں (مثلاً خول کا قطر 1-2 سینٹی میٹر ہو جائے) تو انہیں احتیاط سے بڑے باڑے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
7. صفائی اور صحت: افزائش کے دوران اور بعد میں باڑے کی صفائی کا خیال رکھیں۔ بچی خوراک، گھونگھوں کا فضلہ اور مردہ گھونگھے فوری ہٹا دیں تاکہ انفیکشن نہ پھیلے۔ اگر کوئی گھونگھا بیمار لگے (مثلاً خول سے نکل کر حرکت نہیں کر رہا یا بدبو آ رہی ہے) تو اسے الگ کر کے کسی ماہر کو دکھائیں۔ گھونگھوں پر عام طور پر چھوٹے کیڑے (مثلاً مائٹ) بھی آ سکتے ہیں جنہیں نم کپڑے سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ وقتاً فوقتاً ہاتھ لگانے پر گھونگھے اندر چھپ جاتے ہیں – یہ نارمل ہے – کوشش کریں بلاوجہ بار بار ہاتھ نہ لگائیں۔
8. ریکارڈ اور مشاہدہ: ایک نوٹ بک رکھیں جس میں تاریخ وار نوٹ کریں کہ کب گھونگھے رکھے، کب ملاپ دیکھا گیا، کب انڈے ملے اور کتنے بچے نکلے۔ اس ریکارڈ سے آپ اگلے سیزن کے لیے اندازہ لگا سکیں گے کہ افزائش کی شرح کیا رہی۔ ساتھ ہی خوراک اور درجہ حرارت/نمی کا ریکارڈ بھی مفید ہوگا۔
ان اقدامات پر عمل کرنے سے بتدریج آپ کا سنیل کالونی بڑھنے لگے گا۔ شروع میں کچھ ہلاکتیں یا سست رفتاری ممکن ہے (یہ نئے تجربے کا حصہ ہے)، لیکن سیکھتے سیکھتے آپ افزائش کو بہتر کر لیں گے۔ پاکستان میں چونکہ یہ شعبہ نیا ہے، آپ دیگر فارمرز (اگر موجود ہوں) سے رابطہ کر کے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ابھی کوئی خاص ایکسٹینشن پروگرام نہیں، اس لیے زیادہ تر سیکھنے کے وسائل آن لائن مواد یا ذاتی تجربات ہیں۔ خوش قسمتی سے، گھونگھا ایک ایسا جاندار ہے جو قدرتی طور پر بھی بڑھتا رہتا ہے؛ آپ مناسب ماحول دے کر قدرتی عمل کو زیادہ سے زیادہ ہونے دیں۔ تین سے چھ ماہ کے اندر آپ کو پہلی نسل کے نوجوان گھونگھے ملنے لگیں گے جو آگے چل کر آپ کی پیداوار اور منافع میں حصہ ڈالیں گے۔
مارکیٹ کے مواقع (Market Opportunities)
سنیل فارمنگ سے حاصل ہونے والی پیداوار (گھونگھے اور ان کی بائی پراڈکٹس) کی مانگ کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستانی سیاق و سباق میں دو سطحوں پر امکانات ہیں: مقامی مارکیٹ اور بین الاقوامی مارکیٹ۔
مقامی مارکیٹ: جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان میں روایتی طور پر گھونگھے کھانے کا رواج نہیں رہا۔ اسلامی ثقافت میں زمین کے کیڑے مکوڑوں کو عمومًا حلال غذا نہیں سمجھا جاتا – اسلامی اور یہودی دونوں مذاہب میں گھونگھا کھانے کی ممانعت ملتی ہے ۔ اسی باعث عام پاکستانی صارفین گھونگھے کو بطور خوراک قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا گھونگھے کے گوشت کو مقامی ہوٹلوں یا بازار میں فروخت کرنا عملی طور پر مشکل ہے۔ تاہم، کچھ مخصوص حالات میں محدود مواقع ہو سکتے ہیں: مثلاً بڑے شہروں کے فائیو اسٹار ہوٹل یا غیر ملکی ریستوران جو فرانسیسی، تھائی یا کورین کھانوں میں اسکارگوٹ یا سنیل ڈش پیش کریں (اگر وہ درآمد کرتے ہیں تو لوکل بھی خرید سکتے ہیں)۔ یہ ایک نہایت چھوٹا طبقہ ہوگا، لہٰذا فی الحال گھونگھے کے گوشت پر پاکستان کی اندرونی مارکیٹ کا دارومدار نہیں کیا جا سکتا۔
مقامی سطح پر جس چیز نے دلچسپی پیدا کی ہے وہ سنیل کا слиз/کیچوا (میوکس) ہے جو کاسمیٹکس میں استعمال ہوتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں پہلی دفعہ منسرہ کی ایک فارم نے گھونگھے کے خارج کردہ لیس دار مادے سے بیوٹی کریمز اور سیرم تیار کیے ہیں ۔ گھونگھے کے جسم سے حاصل ہونے والا یہ مائع (جسے عام اصطلاح میں Snail Mucin کہتے ہیں) بین الاقوامی کاسمیٹکس انڈسٹری میں انتہائی مقبول ہو رہا ہے کیونکہ اس میں اینٹی آکسیڈنٹس اور ہائیلورونک ایسڈ جیسے اجزا پائے جاتے ہیں جو جلد کی جھریاں، دھبے اور داغ ٹھیک کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ Sidra Sajjad کی فارم نے یہی پروڈکٹ مقامی طور پر متعارف کرائی ہے اور کچھ کمپنیوں کو سپلائی بھی کر رہی ہے ۔ ان کے مطابق “گھونگھے پر مبنی بیوٹی پراڈکٹس کی عالمی مارکیٹ تیزی سے ترقی کر رہی ہے ، اور پاکستان میں بھی فارماسیوٹیکل و کاسمیٹک کمپنیاں اس میں دلچسپی لے سکتی ہیں۔ چنانچہ مقامی مارکیٹ میں فوری طور پر اگر کوئی قابل ذکر موقع ہے تو وہ کاسمیٹکس اور میڈیکل ریسرچ کا شعبہ ہے – گھونگھے کے سلم (mucus) سے کریمیں، لوشن اور مرہم بنا کر بیچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے گھونگھے کو ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں، زندہ گھونگھوں سے نرم تحریک کے ذریعے слиз اکٹھی کی جاتی ہے (جدید طریقوں سے Cruelty-Free اخذ ممکن ہے جیسا کہ مذکورہ فارم نے کیا) ۔ علاوہ ازیں، گھونگھے کی کھال (خول) کو پیس کر کیلشیم سے بھرپور پاوڈر بنایا جا سکتا ہے جو پولٹری فیڈ یا کھاد میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ ضمنی استعمالات بہت عام نہیں، لیکن مستقبل میں زیرو ویسٹ اپروچ کے تحت مقامی مارکیٹ میں گھونگھے کی پروسیسنگ سے مختلف اشیا فروخت کی جا سکتی ہیں۔
بین الاقوامی مارکیٹ: عالمی سطح پر گھونگھے کی مانگ خاصی پرانی اور وسیع ہے۔ یورپ خصوصاً فرانس، اٹلی اور اسپین میں گھونگھے کا گوشت نہایت مرغوب غذا ہے جسے ایسكارگوٹ (Escargot) کہا جاتا ہے۔ فرانس ہر سال لاکھوں ٹن گھونگھے استعمال کرتا ہے اور اپنی کھپت کا 95٪ حصہ درآمد کرتا ہے کیونکہ مقامی پیداوار ناکافی ہے ۔ پولینڈ جیسے ملک نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر گھونگھے فارمنگ کو صنعت کا درجہ دیا – 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس کو درآمد ہونے والے گھونگھوں میں 9٪ حصہ پولینڈ کا تھا اور پولش فارمز ہیلکس اسیپرسا کی دو اقسام (چھوٹا گرے اور بڑا گرے) پالتے ہوئے 90 ٹن سالانہ تک پیداوار حاصل کر رہے تھے ۔ اسی طرح ترکی، یونان، رومانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے بھی گھونگھے مغربی یورپ کو ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ یورپی مارکیٹ میں عمومی طور پر یورپی نسلوں (Helix spp.) کے گھونگھوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور وہ مہنگے بکتے ہیں، جبکہ افریقی گھونگھے (Achatina spp.) سستے داموں (تقریباً ایک تہائی قیمت پر) فروخت ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ ذائقے اور ٹیکسچر کا فرق ہے – یورپی گھونگھے کا گوشت نسبتاً نرم اور چھوٹے سائز کا ہوتا ہے جسے پکانا آسان ہے، جبکہ جائنٹ افریقن گھونگھے کا گوشت سخت سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال، دونوں کی مانگ موجود ہے اور بہت سے ممالک (مثلاً نائجیریا، گھانا، انڈونیشیا) افریقی گھونگھے بھی برآمد کر کے زر مبادلہ کما رہے ہیں ۔
پاکستانی سنیل فارمرز کے لیے یورپی مارکیٹ ایک پرکشش ہدف ہو سکتی ہے۔ اگر ہم معیاری طریقوں سے گھونگھے پال کر صحت مند اور صاف گھونگھے (یا ان کا گوشت) فراہم کریں تو برآمد ممکن ہے۔ برآمد کی صورت میں آپ گھونگھے زندہ، فریز یا ڈبہ بند (Canned) شکل میں بھیج سکتے ہیں زندہ گھونگھے بھیجتے وقت خصوصی کنٹینر اور خوراک کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ راستے میں مر نہ جائیں۔ عموماً برآمدی کنسائنمنٹ بھیجنے سے قبل گھونگھوں کو چند دن فاقہ کروا کر صاف کروایا جاتا ہے (جسے purging کہتے ہیں) تاکہ آنتوں میں کوئی نقصان دہ مادہ نہ رہ جائے اور شیلف لائف بڑھ جائے۔ یورپ میں درآمد شدہ خوراک کے سخت معیارات ہیں – ممکن ہے EU کے قوانین کے مطابق آپ کو اپنا فارم رجسٹر کروانا پڑے یا وہاں کے insprection سے کلیئرنس لینی پڑے، لیکن یہ سب قابل انتظام ہے اگر پروڈکٹ میں معیار ہو۔
علاوہ ازیں ایشیائی مارکیٹ بھی موجود ہے: جنوب مشرقی ایشیا (تھائی لینڈ، ویتنام، فلپائن) میں گھونگھے کھائے جاتے ہیں اور کچھ چینی طب میں بھی اس کا استعمال ملتا ہے۔ کوریا اور جاپان کی کاسمیٹکس انڈسٹری میں تو سنیل میوکس کی بہت کھپت ہے – کئی مشہور بیوٹی برانڈز “سنیل موسچرائزر” اور ماسک فروخت کر رہے ہیں۔ Sidra Sajjad کے مطابق “گھونگھے کے اجزا پر مبنی بیوٹی پروڈکٹس کی عالمی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان میں اس شعبے کو ترقی دی جائے تو نہ صرف خام سلم بلکہ اس سے بنی ویلیو ایڈڈ کریمیں اور دوائیں بھی ایکسپورٹ کی جا سکتی ہیں۔
کس ملک میں زیادہ مانگ؟ غذا کے لیے بنیادی خریدار فرانس ہے، اس کے علاوہ اسپین، اٹلی، بیلجیئم وغیرہ بھی۔ امریکہ اور کینیڈا میں بھی خاص ریستوران درآمد شدہ اسکارگوٹ استعمال کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں لبنانی، مراکشی وغیرہ کمیونٹی گھونگھے کھاتی ہے – UAE یا خلیج میں بھی niche مارکیٹ نکل سکتی ہے۔ لیکن زیادہ تر پاکستانی فارمر کی نظریں یورپ پر ہونی چاہییں جہاں قیمت بھی اچھی ملے گی (یاد رہے EU میں ہیلیکس پوماٹیا اور اسیپرسا زیادہ مقبول ہیں)۔ کاسمیٹکس کے لیے کوریا، جاپان، چین بڑی منڈیاں ہیں۔ اگر ہمارے فارم معیاری سلم پاوڈر یا فلٹرڈ موسن تیار کریں تو ایشیا کی کاسمیٹک کمپنیاں لے سکتی ہیں۔ Sidra کی مصنوعات مقامی ہونے کے باوجود معیار کی وجہ سے توجہ حاصل کر رہی ہیں اور وہ ملکی کمپنیوں سے پارٹنرشپ کر رہی ہیں – مستقبل میں یہ کام عالمی کمپنیوں سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔
مارکیٹ ٹرینڈ اور منافع: عالمی منڈی میں گھونگھے اور ان کی بنی اشیا کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ سالمون مچھلی یا جھینگے کی طرح اب ایک اگری-ایکپورٹ پراڈکٹ کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ گھونگھے کا گوشت پروٹین سے بھرپور اور کولیسٹرول میں کم ہوتا ہے، اس لیے صحت بخش متبادل گوشت کے طور پر اس کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے؛ اگر ہم اس شعبے میں قدم جمائیں تو ممکن ہے برآمدات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ مقامی کلچر کی وجہ سے یہاں اس کی ڈیمانڈ محدود رہے گی، لہٰذا زیادہ تر انحصار ایکسپورٹ پر ہوگا۔
قانونی تقاضے (Legal & Regulatory Considerations)
پاکستان میں سنیل فارمنگ کے حوالے سے ابھی کوئی مخصوص قانون یا ضابطہ بندی وضع نہیں کی گئی، کیونکہ یہ شعبہ نیا ہے۔ تاہم زرعی اور تجارتی قوانین کے دائرے میں کچھ عمومی نکات کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:
• فارم کی رجسٹریشن: اگر آپ تجارتی پیمانے پر سنیل فارمنگ کر رہے ہیں تو بہترین عمل یہ ہے کہ اپنے فارم کو بطور زرعی ادراہ متعلقہ محکمہ زراعت یا لائیو اسٹاک کے ساتھ رجسٹر کروائیں۔ یوں آپ کو سرکاری سطح پر تسلیم مل جائے گی اور مستقبل میں سبسڈی یا ٹیکنیکل مدد لینا آسان ہوگا۔ فی الحال گھونگھے کو پاکستان میں فارمی لائیوسٹاک کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا، مگر آپ اسے Aquaculture یا تجارتی کیڑوں کی پرورش کے زمرے میں دکھا کر رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔
• جنگلی حیات کے قوانین: اگر آپ جنگل یا قدرتی مقامات سے بڑی تعداد میں گھونگھے اکٹھے کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں کوئی قانونی قدغن نہ ہو۔ عام باغیچے یا کھیت کے گھونگھے کسی محفوظ شدہ نسل میں شمار نہیں ہوتے، اس لیے عموماً ان کو پکڑنے پر پابندی نہیں۔ تاہم، نایاب نسلیں (اگر کوئی مخصوص مقامی گھونگھا خطرے سے دوچار ہے) تو اس کو جمع کرنے سے گریز کریں۔ صوبائی وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ گھونگھے کو فارمنگ کے مقصد سے پکڑنا قانوناً ٹھیک ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ بالکل جائز ہے کیونکہ گھونگھے تو عموماً فصلوں کے کیڑوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے خاتمے کی ترغیب ہی دی جاتی ہے۔
درآمد/برآمد کے پرمٹ: سنیل یا اس کے انڈوں کو درآمد کرتے وقت پلانٹ پروٹیکشن اور محکمہ قرنطینہ سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔ جائنٹ آفریکن سنیل (Achatina fulica) کو دنیا کے کئی ممالک نے زرعی آفت (Invasive Pest) قرار دیا ہے کیونکہ یہ فصلوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ امریکہ میں تو اس کی امپورٹ پر پابندی بھی ہے ۔ پاکستان میں اگرچہ ابھی ایسا کوئی قانون معلوم نہیں جس میں گھونگھے کی درآمد ممنوع ہو، لیکن ایک ذمہ دار فارمر کے طور پر آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بیرون ملک سے لائے گئے گھونگھے کہیں ماحول میں نکل کر نقصان نہ پہنچائیں۔ اسی لیے امپورٹ پر آفیشل کلیئرنس لیں اور درآمد کردہ انڈوں/گھونگھوں کو مکمل طور پر کنٹرولڈ ماحول میں رکھیں۔
• ایکسپورٹ کے تقاضے: گھونگھے یا ان کی بنی مصنوعات برآمد کرنے کے لیے آپ کو وزارت تجارت اور کسٹمز کے قواعد پر پورا اترنا ہوگا۔ سب سے پہلے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (TDAP) یا وزارت تجارت کے ساتھ ایکسپورٹر کے طور پر اپنا اندراج کرائیں۔ پھر جس ملک کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، وہاں کے امپورٹ ریگولیشنز کا علم حاصل کریں۔ خوراک کے طور پر گھونگھا برآمد کرنا ہے تو صحت کا سرٹیفیکیٹ (Health Certificate) درکار ہوگا جو محکمہ لائیوسٹاک یا کوالٹی کنٹرول ادارہ جاری کرے گا کہ یہ خوراک انسانی استعمال کے لیے محفوظ ہے۔ یورپی یونین وغیرہ کے لیے ہو سکتا ہے EU Health Certificate for Snail Meat لینا پڑے اور ساتھ ہی یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آپ کے پروڈکٹ میں کسی قسم کے ممنوع کیمیکل یا بیکٹریا نہیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے ممکن ہے کہ آپ کو گھونگھے ذبح/پروسیس کر کے لیبارٹری ٹیسٹ بھی کروانا پڑے۔ اسی طرح کاسمیٹکس (سنیل سلم) ایکسپورٹ کرنا ہو تو ان ممالک کے کاسمیٹکس ریگولیشن دیکھیں – اکثر تیار شدہ کاسمیٹکس پروڈکٹ ایکسپورٹ کرنے کے لیے اجزا کی تفصیل اور کوئی نہ کوئی کوالٹی سرٹیفیکیٹ درکار ہوتا ہے۔ پاکستان سے چونکہ ابھی یہ ایک نئی برآمد ہوگی، ابتدا میں راہنمائی کم ملے گی، لیکن آپ متعلقہ اتھارٹیز سے بذریعہ خط و کتابت تمام تقاضے معلوم کر کے مکمل کر سکتے ہیں۔
حلال/حرام پہلو: پاکستان میں چونکہ گھونگھے کو عموماً حرام جانور سمجھا جاتا ہے، اس لیے مقامی فروخت کے لیے اگر کبھی کوشش بھی کی گئی تو ہو سکتا ہے شرعی لحاظ سے اجازت نہ ملے۔ کچھ مسلم ممالک (جیسے مراکش، تیونس) میں گھونگھے کھائے جاتے ہیں اور وہاں کے علماء نے مقامی روایات کی بنیاد پر بعض انواع کو جائز قرار دیا ہے، تاہم برصغیر میں یہ رواج بالکل نہیں۔ اس لیے گھونگھے کو بطور غذا پاکستان میں متعارف کراتے وقت مذہبی نقطہ نظر ضرور مدنظر رکھیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہاں اسے وسیع قبولیت نہیں ملے گی، لہٰذا آپ کی بزنس پلاننگ برآمد تک محدود رہے تو بہتر ہے۔
ادویات یا کیمیائی استعمال: گھونگھے کے کسی بھی ممکنہ دوائی استعمال (مثلاً سانپ کے کاٹے کی ویکسین وغیرہ میں کچھ تحقیق چل رہی ہے) کے لیے اگر مقامی دوا ساز کمپنیوں سے رابطہ کریں تو انہیں DRAP (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان) کی منظوری چاہیے ہوگی۔ البتہ یہ مستقبل کے امکانات ہیں، فی الحال فوکس خوراک اور کاسمیٹکس پر ہی رکھیں۔
آخر میں، قانونی معاملات میں ایک اہم چیز آفیشل سپورٹ اور آگاہی بھی ہے۔ چونکہ یہ نیا شعبہ ہے، ہو سکتا ہے شروع میں حکام کو بھی سمجھانے میں وقت لگے کہ سنیل فارمنگ کیا ہے۔ Sidra Sajjad جیسی کامیاب فارمرز نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس انڈسٹری کو شناخت دی جائے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ آپ اپنے طور پر متعلقہ محکموں (زراعت، لائیوسٹاک، کامرس) کو اپنی سرگرمی سے آگاہ رکھیں تاکہ آئندہ پالیسی سازی میں سنیل فارمرز کی آواز شامل ہو سکے۔ فی الحال کوئی لائسنس وغیرہ درکار نہیں، یہ آزادی ہے – مگر ذمہ داری کے ساتھ اس کا استعمال کریں اور قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بزنس کو آگے بڑھائیں۔
چیلنجز اور ممکنہ حل (Challenges & Solutions)
پاکستان میں سنیل فارمنگ کرتے ہوئے فارمر کو کئی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ صحیح حکمت عملی اور پیش بندی سے ان مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اہم چیلنجز اور ان کے ممکنہ حل درج ذیل ہیں:
موسمی شدت اور آب و ہوا: ہمارے ملک میں بعض مقامات پر موسم انتہائی سرد یا انتہائی گرم ہوتا ہے۔ شدید گرمی اور خشک سالی میں گھونگھے ایسٹیویشن (گرما خوابی) میں چلے جاتے ہیں یعنی خول کا منہ بند کر کے غیرفعال ہو جاتے ہیں، جس سے ان کی خوراک کھانے اور بڑھنے کی رفتار رک جاتی ہے ۔ اسی طرح شدید سردی میں وہ سرما خوابی میں چلے جاتے ہیں۔ حل: چھوٹے پیمانے پر فارمنگ کر رہے ہیں تو گرمیوں میں گھونگھوں کو ایسے شیڈ یا کمرے میں منتقل کریں جہاں ایئر کولر/پنکھوں سے درجہ حرارت ۳۰°سے کم رکھا جا سکے اور نمی کے لیے دن میں چند بار پانی کا چھڑکاؤ ہو ۔ سردیوں میں اگر تیمپریچر ۱۰°سینٹی گریڈ سے نیچے جانے لگے تو گھونگھوں کو کسی اندرونی کمرے میں شفٹ کر کے درجہ حرارت ہیٹر وغیرہ سے ۱۵°-۲۰° تک رکھیں۔ کنٹرولڈ فارمنگ میں یہ چیلنج نسبتاً آسانی سے حل ہو جاتا ہے، مگر اوپن فارمنگ میں شیڈ نیٹ، گھاس پھوس کی موٹی تہہ (انسولیشن کے لیے) اور ضرورت پڑے تو پلاسٹک کور کا بندوبست کریں۔ بلوچستان یا گلگت جیسے علاقوں میں جہاں سردیاں بہت لمبی ہیں، وہاں موسم سرما میں فارمنگ وقفہ دے کر گھونگھوں کو ہائبرنیٹ کرنے دیں اور بہار شروع ہوتے ہی انہیں جگا کر خوراک دیں تاکہ دوبارہ سرگرم ہو جائیں۔
شکاری اور کیڑے (Predators & Pests): پاکستان میں چیونٹیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں جو گھونگھے کے انڈے اور ننھے بچوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح چوہے گھونگھوں کو کھا سکتے ہیں، پرندے (مثلاً کوے، بٹیر) اگر پہنچ جائیں تو چونچ مار کر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کچھ کیڑے اور نماتود (nematodes) بھی گھونگھوں پر حملہ کرتے ہیں جو ان کی صحت کو خراب کر دیتے ہیں۔ حل: باڑے یا شیڈ کو ہر ممکن حد تک محفوظ اور بند رکھیں۔ چیونٹیوں سے بچاؤ کے لیے باکسز کے پائے پانی میں کھڑے کریں یا گرد ایک معمولی سی خندق بنا دیں۔ داخلی راستوں پر چیونٹیوں کو بھگانے والا چاک یا راکھ کی لائن کھینچ دیں۔ پرندوں کے لیے اوپر جالی ہمیشہ تنی رہے۔ چوہوں کی روک تھام کے لیے باڑے کے آس پاس صفائی رکھیں، جھاڑیوں میں زہر کی گولیاں یا پھندے لگائیں۔ بڑے شکاری جانور (مثلاً گوہ وغیرہ) بعض دیہی علاقوں میں ہو سکتے ہیں – ان سے بچاؤ کے لیے مضبوط باڑ اور رات کے وقت روشنی کا انتظام کریں۔ بیماریوں سے بچنے کو ہر دو ہفتے بعد ہلکے پوٹاشیم پرمیگنیٹ محلول کا اسپرے زمین پر کر دیں (گھونگھوں پر نہیں) تاکہ جراثیم مر جائیں۔ گھونگھوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئیں تاکہ کوئی انفیکشن نہ پھیلے۔
خوراک اور تغذیہ کی کمی: گھونگھے خوب کھاتے ہیں – اگر خوراک کی مقدار یا معیار کم ہو جائے تو ان کی افزائش رک جائے گی۔ خاص کر کیلشیم اور پروٹین کی کمی سے بالغ گھونگھے انڈے کم دیں گے اور بچے کمزور ہوں گے۔ حل: چیلنج کے باوجود یہ نسبتاً قابو میں رہنے والا پہلو ہے۔ فارمر کو چاہیے گھونگھوں کے لیے کم از کم 2-3 اقسام کی خوراک روزانہ رکھے (مثلاً پتوں کے ساتھ کچھ پھل یا سبزی) تاکہ غذائیت متوازن ملے ۔ کیلشیم کا مستقل انتظام رکھیں – اگر سستا ذریعہ نہ ملے تو چونا پتھر یا سیپیوں کا چورن بوری بھر کر رکھ لیں، یہی آہستہ آہستہ ڈالتے رہیں۔ موسم سرما میں تازہ پتوں کی کمی ہو تو گاجر، بندگوبھی اسٹور کر کے یا خشک چارہ کو گیلا کر کے ڈالیں۔ اگر فارمنگ بڑے پیمانے پر ہے تو کچھ رقبہ پر چارہ (جیسے مولی، شلجم، بندگوبھی) خود اُگا لیں تاکہ لاگت کم ہو۔ خوراک کی کمی کو مارکٹ کے فضلہ سے بھی پورا کیا جا سکتا ہے جیسا اوپر ذکر ہوا۔
سرمایہ اور منافع میں تاخیر: کئی نئے فارمر یہ سوچ کر آتے ہیں کہ سنیل فارمنگ سے فوری منافع ہوگا، لیکن حقیقت میں پہلے سال صرف کالونی بنانے میں جاتا ہے۔ گھونگھے آہستہ بڑھتے ہیں اور اگر آپ کو ان کو ایکسپورٹ کے قابل بنانا ہے تو کم از کم 8-12 ماہ کا سائیکل درکار ہوگا (جب کافی وزن کے گھونگھے تیار ہوں گے)۔ اس دوران اخراجات (خوراک، محنت) چلتے رہیں گے جبکہ آمدن شروع میں صفر ہوگی۔ حل: اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پہلے دن سے ایک بزنس پلان بنائیں جس میں یہ لمبی انویسٹمنٹ کا دورانیہ شامل ہو۔ شروع میں بہت زیادہ گھونگھے یا انفراسٹرکچر پر خرچ نہ کریں۔ چھوٹے پیمانے سے آغاز کر کے تجربہ حاصل کریں پھر توسیع کریں۔ درمیانی مدت میں اگر ممکن ہو تو گھونگھوں سے کچھ ضمنی پروڈکٹ (جیسے سلم یا خول کا چورا) نکال کر بیچنے کی کوشش کریں تاکہ کچھ آمدن شروع ہو جائے۔ سب سے بڑھ کر صبر اور تسلسل بہت ضروری ہے – جیسا کہ منسرہ کی فارمر نے بھی کہا کہ “شروع میں کئی مشکلات آئیں مگر مستقل مزاجی سے آخرکار کامیابی ملی۔
• معاشرتی اور مہارتی خلا: سنیل فارمنگ میں آپ کو ارد گرد لوگوں کی کم علمی یا حوصلہ شکنی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے (“یہ کیا کیڑے پال رہا ہے؟”). ضروری ہے کہ آپ خود پراعتماد رہیں اور سائنسی بنیاد پر کام کریں۔ معلومات کی کمی ایک اور چیلنج ہے؛ مقامی سطح پر کوئی انسٹی ٹیوٹ یا ماہر نہیں جو فوری رہنمائی کر سکے۔ حل: انٹرنیٹ اور مطبوعات کو اپنا استاد بنائیں۔ FAO اور دیگر عالمی اداروں کی گائیڈز موجود ہیں (جیسا کہ حوالہ جات میں استعمال ہوئیں) – ان کا مطالعہ کریں۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے سنیل فارمرز سے رابطہ کریں، بہت سے گروپس اور فورم آن لائن مل جائیں گے جہاں آپ اپنے سوال پوچھ سکتے ہیں۔ اگر زبان رکاوٹ ہے تو آج کل مشین ٹرانسلیشن سے کام چل جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، حکومتی سطح پر ابھی کوئی ٹریننگ پروگرام نہ ہونے کے باوجود آپ محکمہ زراعت کے مقامی افسران کو اپنے فارم کا وزٹ کروا سکتے ہیں تاکہ وہ بھی سیکھیں اور ممکن ہے چھوٹے موٹے مشورے وہ بھی دے سکیں۔ آہستہ آہستہ جیسے جیسے یہ شعبہ بڑھے گا، ویسے ویسے نالج شیئرنگ بھی بڑھے گی۔
مارکیٹنگ اور فروخت کا دباؤ: فرض کریں آپ نے کامیابی سے گھونگھے پال لیے، اب انہیں بیچنا ہے۔ صحیح خریدار ڈھونڈنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔ اگر برآمد کرنی ہے تو بین الاقوامی خریداروں سے رابطہ، ان کو نمونے بھیجنا وغیرہ وقت طلب ہو سکتا ہے۔ حل: اس کا حل یہ ہے کہ شروع سے ہی مارکیٹ ریسرچ کرتے رہیں۔ جس پراڈکٹ کا سوچ رہے ہیں (گوشت یا سلم)، اس کے ممکنہ خریدار کون ہیں، قیمت کیا مل سکتی ہے – یہ معلومات اکٹھا کریں۔
پاکستان میں موجود ایکسپورٹر کمپنیوں یا سی فوڈ ایکسپورٹرز سے بات کریں ممکن ہے وہ اپنی موجودہ چینلز سے آپ کے گھونگھے بھی باہر بھیج سکیں۔ TDAP اور چیمبرز آف کامرس کے ذریعے بین الاقوامی خریداروں کے کونٹیکٹ حاصل کریں۔ سوشل میڈیا/لنکڈ اِن پر بھی تلاش کریں کہ کون سی کمپنیاں Escargot یا Snail slime امپورٹ کر رہی ہیں۔ جب گھونگھے تیار ہونے کے قریب ہوں تو ان ممکنہ خریداروں کو سیمپل بھیج کر کوالٹی چیک کروائیں تاکہ آرڈر ملنے میں آسانی ہو۔ یاد رکھیں مارکیٹنگ itself ایک الگ کام ہے، اسے آخری لمحے تک نہ ٹالیں بلکہ فارمنگ کے ساتھ ساتھ اس پہ بھی محنت کریں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سنیل فارمنگ ایک منافع بخش مگر محنت طلب اور دور اندیشی والا شعبہ ہے۔ آغاز میں چیلنجز ضرور ہیں، لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے چھوٹے پیمانے سے شروع کر کے اسے کامیاب بزنس میں تبدیل کیا ہے ۔ مثلاً پولینڈ میں ایک کسان نے بتایا کہ جب اس نے شروع کیا تو ملک میں صرف 3 فارمر تھے، ایک دہائی میں 300 ہو گئے ۔ پاکستان میں بھی یہ سفر شروع ہو چکا ہے – اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ان مواقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مناسب اقسام کا انتخاب، بہترین نگہداشت، مسلسل سیکھنے کا جذبہ اور مارکیٹ کی سمجھ بوجھ کے ساتھ آپ سنیل فارمنگ کو ایک نئے اُبھرتے ہوئے شعبے کے طور پر ملک میں متعارف کرانے والوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ مستقبل میں بڑھتی عالمی طلب کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ یہاں بھی جلد یہ ایک قائم صنعت بن جائے گی۔ ہر چیلنج کے ساتھ حل کے راستے بھی ہیں – بس ثابت قدمی اور دانشمندی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات: فراہم کردہ معلومات مختلف مستند ذرائع سے لی گئی ہے جن میں FAO اور دیگر تحقیقی مطبوعات، ویکیپیڈیا، بین الاقوامی اخباری مضامین اور پاکستان میں ہونے والی تازہ پیش رفت (منسرہ سنیل فارم کی کہانی) شامل ہیں۔ اہم حوالہ جات ہر متعلقہ حصے میں 【نمائندہ نمبر】 کی شکل میں درج کر دیے گئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اصل ماخذ سے مزید تفصیل حاصل کی جا سکے۔ سنیل فارمنگ پر یہ جامع تحقیق نئے فارمرز کے لیے ایک رہنما کے طور پر کام کرے گی اور امید ہے کہ پاکستان میں اس نئے شعبے کی بنیاد مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگی
Recent Comments